تحریر:سید نورالحسن گیلانی۔ عنوان:”جامع آیا صوفیہ“ تاریخ کے آئینے میں!۔
دنیا کتنی ناانصاف ہوسکتی ہے؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی تاریخی بابری مسجد پر جب بھارتی عدالت نے یک طرفہ اور ناانصافی پر مبنی فیصلہ دیا تھا تو پوری دنیا خاموش رہی کسی نے بھی بھارت پر دباؤ تک نہ ڈالا مگر جب ترکی کی قدیم ترین مسجد ”آیاصوفیہ“ کی بحالی کا اعلان کیا گیا تو پوری دنیا بلخصوص عیسائیت میں صف ماتم سا بچھ گیا۔ترکی کے صدر طیب اردگان کے اِس فیصلے سے عالم اسلام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔آیا صوفیہ کو 1500 سال پہلے بازنطینی عہد میں گرجا گھر کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔ 900 سال بعد سلطنت عثمانیہ کی فوج نے استنبول پر قبضہ کیا اور اسے مسجد میں بدل دیا گیا۔ 80 سال قبل خلافت عثمانیہ ختم ہوئی تو اسے عجائب گھر بنادیا گیا تھا۔یہ معروف عمارت استنبول کے فیتھ ڈسٹرکٹ میں سمندر کے کنارے واقع ہے۔ بازنطینی بادشاہ جسٹنیئن اول نے اس کی تعمیر کا حکم 532 میں دیا تھا جب اس شہر کا نام قسطنطنیہ تھا۔ یہ بیزنٹائن سلطنت (جسے مشرقی رومی سلطنت بھی کہا جاتا ہے) کا دارالحکومت بھی تھا۔ 1453 میں سلطنتِ عثمانیہ کے سلطان محمد دوئم نے قسطنطنیہ پر قبضہ کرکے شہر کا نام تبدیل کر کے استنبول رکھا اور بازنطینی سلطنت کا خاتمہ کر دیا۔تقریباً نو سو سال تک آورتھوڈوکس چرچ کا گھر رہنے والی عمارت آیا صوفیہ میں داخل ہوتے وقت سلطان محمد دوئم کا اصرار تھا کہ اس کی تعمیرنو کی جائے اور اسے ایک مسجد بنایا جائے۔ انہوں نے اس میں جمعے کی نماز بھی پڑھی۔آیا صوفیہ فتح ہونے تک مشرقی رومن سلطنت جسے بازنطینی سلطنت کا نہ صرف سب سے بڑا مذہبی مرکز تھا بلکہ بازنطینی سلطنت کے تمام اہم امور اسی عمارت سے چلائے جاتے تھے۔ آیا صوفیہ یونانی زبان کے کا لفظ ہے جس کا معنی ہے”Holy Wisdom“جسے ترکوں نے آیا صوفیہ کا نام دیا اس کے تاریخی پس منظر پہ نگاہ ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ اس کو 360ء میں قسطنطین نے لکڑی سے بنوایا تھا جو چھٹی صدی میں جل گیا تو قیصر جسٹینین اول نے 532ء میں آیا صوفیہ کو پختہ اور عالیشان عمارت بنوانا شروع کیا جس کی تکمیل میں چھ سال لگے اور روایت میں ملتا ہے کہ تکمیل کے بعد جب جسٹینین پہلی بار اس میں داخل ہوا تو اس نے تکبرانہ و گستاخانہ جملہ کہا ”سلیمان میں تم پر سبقت لے گیا“اس کے بعد تقریباً ہزار برس تک یہ عمارت آرتھوڈوکس عیسائیت کا مرکز بنی رہی اور آخری بار 28 مئی 1453 ء کو مسیحیوں نے اس میں مذہبی رسومات ادا کیں، اگلے روز سلطان محمد دوم فاتحانہ اس میں داخل ہوا جو اس لمحے سے پہلے تک رومن سلطنت کے تاج و تخت کی علامت کے طور پر دیکھی جاتی تھی۔اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مسلسل آٹھ سو سال تک مسلمان قسطنطنیہ فتح کرنے کے لیے لشکر کشی کرتے رہے لیکن یہ سعادت عثمانی سلطان محمد فاتح کو نصیب ہوئی جس کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ”تم ضرور قسطنطنیہ فتح کرلوگے،کیا ہی شاندار وہ امیر ہوگا اور کیا ہی شاندار وہ لشکر ہوگا“۔ قسطنطنیہ چونکہ سلطان کی طرف سے صلح کی پیشکش کے بعد بزور شمشیر فتح ہوا تھا، اس لیے مسلمان ان کلیساؤں کو باقی رکھنے کے پابند نہ تھے اور اس بڑے چرچ کے ساتھ جو توہمات اور باطل عقیدے وابستہ تھے انہیں بھی ختم کرنا تھا۔ اس لیے سلطان محمد فاتح نے اس چرچ کو مسجد میں تبدیل کرنے کا ارادہ کیا، چنانچہ اسے مال کے ذریعہ خریدا گیا، اس میں موجود رسموں اور تصاویر کو مٹا دیا گیا اور محراب قبلہ رخ کر دی گئی، سلطان نے اس کے میناروں میں بھی اضافہ کر دیا تھا۔ اس کے بعد یہ مسجد ”جامع آیا صوفیہ“ کے نام سے مشہور ہوئی اور اسے استنبول میں پہلی شاہی مسجد کا درجہ حاصل ہوا جہاں 1517 ء سے باقاعدہ عثمانی خلیفہ اس کے ممبر سے خطبہ دینے لگے اور سلطنت عثمانیہ کے خاتمہ تک تقریباً پانچ سو سال تک پنجوقتہ نماز ہوتی رہی۔ جنگ عظیم اول کے بعد ترکی کا کنٹرول سنبھال کر مصطفیٰ کمال پاشا نے سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کا اعلان کردیا جس پر علامہ اقبال نے کہا کہ ”چاک کردی ترک ناداں نے خلافت کی قبا“وہ سیکیولرزم کی آڑ میں اسلام دشمنی میں اس حد تک آگے نکل گیا کہ اسلامی فرائض تک پر پابندی عائد کردی اور 24 نومبر 1934 ء کو جب اسے ”اتا ترک“یعنی ترکوں کا باپ کا خطاب ملا تو اسی دن ترک کابینہ نے مسجد آیا صوفیہ کو میوزیم بنانے کی منظوری دیدی۔ اور آج تقریباً86سال گزر جانے کے بعدآیا صوفیہ میں اذان کی گونج سنائی دینے لگی ہے جو کہ ایک خوش آمد بات ہے۔اس اعلان کے بعد اہلیان مغرب کے ساتھ ساتھ سیکیولر حلقوں میں چیخ و پکار مچی ہے جس کی اہم وجہ یہ نہیں کہ آیا صوفیہ کی عمارت کبھی چرچ ہوا کرتی تھی مگراصل وجہ یہ ہے کہ جامع آیا صوفیہ اسلامی فتح کی علامت کے طور پر جانی جاتی تھی، صرف اتنا ہی نہیں بلکہ یہ آرتھوڈوکس،Christianity،اور رومن سلطنت پر ترک عثمانی سلطنت کی مذہبی و فوجی بلکہ ہر لحاظ سے برتری کی علامت ہے اور اس کی بحالی کے اعلان نے ایک بار پھر رومیوں کے زخم پر نمک چھڑک دیا ہے۔مغربی میڈیا مسجد آیا صوفیہ کے معاملے کو متنازعہ بنارہا ہے جسے روس نے فیصلے سے پہلے ہی ترکی کا داخلی مسئلہ قرار دیا تھا لیکن مغربی میڈیا کے غیرضروری طور پر اسے اسلامی و مغربی یعنی عیسائیت کی تہذیب کا مسئلہ بناکر پیش کررہا ہے جو کہ سراسر غلط ہے۔
دنیا کتنی ناانصاف ہوسکتی ہے؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی تاریخی بابری مسجد پر جب بھارتی عدالت نے یک طرفہ اور ناانصافی پر مبنی فیصلہ دیا تھا تو پوری دنیا خاموش رہی کسی نے بھی بھارت پر دباؤ تک نہ ڈالا مگر جب ترکی کی قدیم ترین مسجد ”آیاصوفیہ“ کی بحالی کا اعلان کیا گیا تو پوری دنیا بلخصوص عیسائیت میں صف ماتم سا بچھ گیا۔ترکی کے صدر طیب اردگان کے اِس فیصلے سے عالم اسلام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔آیا صوفیہ کو 1500 سال پہلے بازنطینی عہد میں گرجا گھر کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔ 900 سال بعد سلطنت عثمانیہ کی فوج نے استنبول پر قبضہ کیا اور اسے مسجد میں بدل دیا گیا۔ 80 سال قبل خلافت عثمانیہ ختم ہوئی تو اسے عجائب گھر بنادیا گیا تھا۔یہ معروف عمارت استنبول کے فیتھ ڈسٹرکٹ میں سمندر کے کنارے واقع ہے۔ بازنطینی بادشاہ جسٹنیئن اول نے اس کی تعمیر کا حکم 532 میں دیا تھا جب اس شہر کا نام قسطنطنیہ تھا۔ یہ بیزنٹائن سلطنت (جسے مشرقی رومی سلطنت بھی کہا جاتا ہے) کا دارالحکومت بھی تھا۔ 1453 میں سلطنتِ عثمانیہ کے سلطان محمد دوئم نے قسطنطنیہ پر قبضہ کرکے شہر کا نام تبدیل کر کے استنبول رکھا اور بازنطینی سلطنت کا خاتمہ کر دیا۔تقریباً نو سو سال تک آورتھوڈوکس چرچ کا گھر رہنے والی عمارت آیا صوفیہ میں داخل ہوتے وقت سلطان محمد دوئم کا اصرار تھا کہ اس کی تعمیرنو کی جائے اور اسے ایک مسجد بنایا جائے۔ انہوں نے اس میں جمعے کی نماز بھی پڑھی۔آیا صوفیہ فتح ہونے تک مشرقی رومن سلطنت جسے بازنطینی سلطنت کا نہ صرف سب سے بڑا مذہبی مرکز تھا بلکہ بازنطینی سلطنت کے تمام اہم امور اسی عمارت سے چلائے جاتے تھے۔ آیا صوفیہ یونانی زبان کے کا لفظ ہے جس کا معنی ہے”Holy Wisdom“جسے ترکوں نے آیا صوفیہ کا نام دیا اس کے تاریخی پس منظر پہ نگاہ ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ اس کو 360ء میں قسطنطین نے لکڑی سے بنوایا تھا جو چھٹی صدی میں جل گیا تو قیصر جسٹینین اول نے 532ء میں آیا صوفیہ کو پختہ اور عالیشان عمارت بنوانا شروع کیا جس کی تکمیل میں چھ سال لگے اور روایت میں ملتا ہے کہ تکمیل کے بعد جب جسٹینین پہلی بار اس میں داخل ہوا تو اس نے تکبرانہ و گستاخانہ جملہ کہا ”سلیمان میں تم پر سبقت لے گیا“اس کے بعد تقریباً ہزار برس تک یہ عمارت آرتھوڈوکس عیسائیت کا مرکز بنی رہی اور آخری بار 28 مئی 1453 ء کو مسیحیوں نے اس میں مذہبی رسومات ادا کیں، اگلے روز سلطان محمد دوم فاتحانہ اس میں داخل ہوا جو اس لمحے سے پہلے تک رومن سلطنت کے تاج و تخت کی علامت کے طور پر دیکھی جاتی تھی۔اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مسلسل آٹھ سو سال تک مسلمان قسطنطنیہ فتح کرنے کے لیے لشکر کشی کرتے رہے لیکن یہ سعادت عثمانی سلطان محمد فاتح کو نصیب ہوئی جس کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ”تم ضرور قسطنطنیہ فتح کرلوگے،کیا ہی شاندار وہ امیر ہوگا اور کیا ہی شاندار وہ لشکر ہوگا“۔ قسطنطنیہ چونکہ سلطان کی طرف سے صلح کی پیشکش کے بعد بزور شمشیر فتح ہوا تھا، اس لیے مسلمان ان کلیساؤں کو باقی رکھنے کے پابند نہ تھے اور اس بڑے چرچ کے ساتھ جو توہمات اور باطل عقیدے وابستہ تھے انہیں بھی ختم کرنا تھا۔ اس لیے سلطان محمد فاتح نے اس چرچ کو مسجد میں تبدیل کرنے کا ارادہ کیا، چنانچہ اسے مال کے ذریعہ خریدا گیا، اس میں موجود رسموں اور تصاویر کو مٹا دیا گیا اور محراب قبلہ رخ کر دی گئی، سلطان نے اس کے میناروں میں بھی اضافہ کر دیا تھا۔ اس کے بعد یہ مسجد ”جامع آیا صوفیہ“ کے نام سے مشہور ہوئی اور اسے استنبول میں پہلی شاہی مسجد کا درجہ حاصل ہوا جہاں 1517 ء سے باقاعدہ عثمانی خلیفہ اس کے ممبر سے خطبہ دینے لگے اور سلطنت عثمانیہ کے خاتمہ تک تقریباً پانچ سو سال تک پنجوقتہ نماز ہوتی رہی۔ جنگ عظیم اول کے بعد ترکی کا کنٹرول سنبھال کر مصطفیٰ کمال پاشا نے سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کا اعلان کردیا جس پر علامہ اقبال نے کہا کہ ”چاک کردی ترک ناداں نے خلافت کی قبا“وہ سیکیولرزم کی آڑ میں اسلام دشمنی میں اس حد تک آگے نکل گیا کہ اسلامی فرائض تک پر پابندی عائد کردی اور 24 نومبر 1934 ء کو جب اسے ”اتا ترک“یعنی ترکوں کا باپ کا خطاب ملا تو اسی دن ترک کابینہ نے مسجد آیا صوفیہ کو میوزیم بنانے کی منظوری دیدی۔ اور آج تقریباً86سال گزر جانے کے بعدآیا صوفیہ میں اذان کی گونج سنائی دینے لگی ہے جو کہ ایک خوش آمد بات ہے۔اس اعلان کے بعد اہلیان مغرب کے ساتھ ساتھ سیکیولر حلقوں میں چیخ و پکار مچی ہے جس کی اہم وجہ یہ نہیں کہ آیا صوفیہ کی عمارت کبھی چرچ ہوا کرتی تھی مگراصل وجہ یہ ہے کہ جامع آیا صوفیہ اسلامی فتح کی علامت کے طور پر جانی جاتی تھی، صرف اتنا ہی نہیں بلکہ یہ آرتھوڈوکس،Christianity،اور رومن سلطنت پر ترک عثمانی سلطنت کی مذہبی و فوجی بلکہ ہر لحاظ سے برتری کی علامت ہے اور اس کی بحالی کے اعلان نے ایک بار پھر رومیوں کے زخم پر نمک چھڑک دیا ہے۔مغربی میڈیا مسجد آیا صوفیہ کے معاملے کو متنازعہ بنارہا ہے جسے روس نے فیصلے سے پہلے ہی ترکی کا داخلی مسئلہ قرار دیا تھا لیکن مغربی میڈیا کے غیرضروری طور پر اسے اسلامی و مغربی یعنی عیسائیت کی تہذیب کا مسئلہ بناکر پیش کررہا ہے جو کہ سراسر غلط ہے۔
1 Comments
بالکل
ReplyDelete