
آرایس ایس اصل میں ہٹلر کے حقیقی پیروکار ہیں اور اسی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے خلاف بولنے والے ہر انسان کا قتل کرنا ان کے لئے ایک عام سی بات ہے مثلاً بھارت میں آئے دن آر ایس ایس کے غنڈے مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹتے رہتے ہیں۔انتہا پسند ہندو جماعت ”راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (آر ایس ایس)“ بالکل اسی طرح بھارت میں کسی دوسرے مذہب کے پیروکار یا عقیدت مند کو زندہ رہنے کا حق دینے کے لیے تیار نہیں ہے جس طرح ایک زمانے میں نازیوں کے نزدیک جرمن قوم کے علاوہ کسی دوسری قوم کو زندہ رہنے کے لیے ان حقوق کی قطعی ضرورت نہیں تھی جو جرمنی کے لوگوں کے لئے بنیادی ضرورت تھے۔تاریخی ثبوت و شواہد اس امر کے غماز ہیں کہ آر ایس ایس اصل میں نازی سوچ کی پیروکار ہے اور اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے دنگا فساد کرانے سے لے کر نسل پرستی سمیت ہر قسم کے منفی ہتھکنڈے کو اختیار کرنے میں وہ عار محسوس نہیں کرتی ہے۔راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ خود کو دراصل قوم پرست ہندو تنظیم قرار دیتی ہے لیکن متعدد دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث رہی ہے۔اس کی تشکیل ناگپور میں 1925 ء میں ہوئی تھی اور اس کا بانی کیشوا بلی رام ہیڑگیوارتھا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ بھارت ایک ہندو ملک ہے۔برطانوی دور حکومت میں اس تنظیم پر ایک مرتبہ اور تقسیم ہند کے بعد اس پر تین مرتبہ عقائد اور حرکات و سکنات کے باعث پابندیاں بھی عائد کی گئیں۔1927 ء کے ناگپور فساد میں اس کا اہم کردار تھا تو 1948 ء میں مہاتما گاندھی کا قتل اسی تنظیم سے تعلق رکھنے والے ایک کارکن ناتھورام ونائک گوڑ نے کیا تھا۔احمد آباد فساد، تلشیری فساد اور جمشید پور فرقہ وارانہ فسادات بھی اسی کے شیطانی ذہن کی اختراع قرار دیے جاتے ہیں۔ دسمبر 1992 ء میں جب بابری مسجد کا انہدام ہوا تو اس کی پشت پربھی یہی تنظیم موجود تھی۔بھارت کی مختلف حکومتوں کی جانب سے کئی واقعات کی تحقیقات کے لیے جب کمیشنز بنائے گئے تو انہوں نے بھی اپنی تحقیقاتی رپورٹس میں آر ایس ایس کو ہی مورد الزام ٹھہرایا۔جن فسادات میں سرکاری طور پر اس تنظیم کو ذمہ دار قرار دیا گیا ان میں احمدآباد فساد پر تیار ہونے والی جگموہن رپورٹ، بھیونڈی فساد پر ڈی پی ماڈن رپورٹ، تلشیری فساد پر وتایاتیل رپورٹ، جمشید پور فساد پر جتیندر نارائن رپورٹ، کنیا کماری فساد پر وینوگوپال رپورٹ اور بھاگلپور فساد پر تیار کی جانے والی رپورٹ شامل ہیں مگر آج تک اس دہشتگرد جماعت کے خلاف کوئی ایکشن نہیں اٹھایا گیا۔بھارت میں آر ایس ایس کے نظریات اور اس کے خیالات سے اتفاق کرنے والی دیگر تمام تنظیموں کو عمومی طور پر سنگھ پریوارکہا جاتا ہے۔اس کی دیگر ہم خیال تنظیموں میں وشوا ہندو پریشد، بھارتیہ جنتا پارٹی(سنگھ پریوار کی سیاسی جماعت)، ون بندھو پریشد، راشٹریہ سیوکا سمیتی، سیوا بھارتی، اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد(سنگھ پریوار کا اسٹوڈنٹس ونگ)، ونواسی کلیان آشرم، بھارتیہ مزدور سنگھ اور ودیا بھارتی شامل ہیں، بی جے پی (BJP) آرایس ایس کا سیاسی ونگ ہے۔بھارت کی اپنی تحقیقاتی ایجنسیوں اور اداروں نے ماضی میں ہونے والے مالیگاؤ بم دھماکہ، حیدرآباد مکہ مسجد بم دھماکہ، اجمیر بم دھماکہ اور سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکہ میں سنگھ پریوار کی تنظیموں کو ملوث قرار دیا ہے۔مہاتما گاندھی کو پورے بھارت میں عام ہندوستانی باپو کے نام سے پکارتا ہے لیکن ہندو توا کے پیروکار اس شخص کے لہو سے ہاتھ رنگنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرتے بلکہ فخریہ اس کا اعتراف کرتے ہیں، اس کے بڑے نیتاؤں نے بھی اس گھناؤنے منصوبے اور قتل پر کبھی قوم سے معافی مانگنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کا اگر نفسیاتی تجزیہ کیا جائے تو بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح ہٹلر نے غیر جرمنوں کی بڑے پیمانے پر نسل کشی کی تھی بالکل اسی طرح یہ مقبوضہ کشمیر سمیت دیگر علاقوں میں آباد غیر ہندوؤں کے قتل عام میں مصروف ہے۔مہاتما گاندھی کے بہیمانہ قتل کے بعد جب راشڑیہ سیوک سنگھ کے خلاف قانونی کارروائی کی گئی تو اس کے نیتاؤں نے اپنا دامن اجلا دکھانے کے لیے نئی سیاسی جماعت جن سنگھ قائم کرلی تھی جو ملک میں ہندو راج چاہتی تھی، بھارتیہ جنتا پارٹی نے اسی کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا اور مسلمان دشمنی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔بھارت میں عام تاثر ہے کہ آر ایس ایس کی ذیلی تنظیمیں وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل اس وقت زیادہ تر دہشت گردانہ کارروائیوں میں مصروف ہیں تاکہ آر ایس ایس کو محفوظ رکھا اور دکھایا جا سکے اس کے علاوہ آر ایس ایس بھی مسلمانوں کے قتل عام میں سرگرم نظر آتی ہے۔عالمی سیاسی مبصرین کے نزدیک قرین قیاس یہی ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ہٹلر کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے اور اس کی حرکات و سکنات بتاتی ہیں کہ وہ اس پر یقین رکھتا ہے کہ بھارت میں کسی دوسرے مذہب کے پیروکار کو رہنے کا کوئی حق نہیں ہے اور اس کا تو مودی اور اس کے حامیوں نے کئی بار کھلے عام اعتراف بھی کیا مگر افسوس کہ دنیا ابھی تک خاموشی سے دیکھ رہی ہے اور بھارت مسلمانوں کا قتل عام کررہا ہے۔جس طرح ہٹلرنے غیر جرمنوں کی بڑے پیمانے پر نسل کشی کی تھی بالکل اسی طرح نریندر مودی نے بطور وزیراعلیٰ گجرات 2002 میں مسلمانوں کی بدترین نسل کشی اپنی سرپرستی میں کرائی تھی۔ اس وقت لاتعداد مسلمانوں کا بہیمانہ قتل عام کیا گیا تھا، زندہ مسلمانوں کو جلایا گیا تھا، مسلمان خواتین کی اجتماعی آبروریزی کی گئی تھی۔سانحہ گجرات کے بعد ہی عالمی ذرائع ابلاغ میں نریندر مودی کو قصائی کے نام سے پکارا گیا تھا اور امریکہ نے ویزہ تک دینے سے انکار کردیا تھا، انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو انسانیت کا قاتل بھی قرار دیا تھا۔اس کے علاوہ دہلی فسادات بھی قابل ذکر ہیں جس کے پیچھے بھی مودی کا ہی ہاتھ تھا اس کے علاوہ اور بھی کئی مواقع ہیں جب مسلمانوں کے قتل عام سے تاریخ رقم کی گئی تھی مگر افسوس کہ انسانی حقوق کے علمبردار بجائے کاغذی بیانات سے آگے نہ نکل سکے یہی وجہ ہے کہ بھارت نے سرعام مقبوضہ وادی جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے اقوام متحدہ کو یہ پیغام دیا کہ اقوام متحدہ کی قراردادیں اس کیلئے کوئی معنی نہیں رکھتی اور اس نے طاقت کے بل بوتے پروادی کشمیر پر گزشتہ 72سالوں سے جبراً قبضہ کیا ہوا ہے جہاں پر کشمیریوں کا قتل عام کیا جارہا ہے مگر پھر بھی اقوام متحدہ خاموش ہے آخر کیوں؟۔
1 Comments
بالکل
ReplyDelete