تحریر:سید نورالحسن گیلانی۔ عنوان:وادی کشمیر کو جہنم بنے 11ماہ بیت گئے!۔
سلامتی کونسل کی تمام تر قراردادوں کی رو سے جموں و کشمیرایک ایسا متنازعہ علاقہ ہے جو کہ گزشتہ 72سالوں سے جنوبی ایشیاء کے دو ممالک بھارت اور پاکستان کے درمیان سب سے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے جس کی وجہ سے ان دونوں ممالک کے درمیان 3بڑی جنگیں بھی ہوچکی ہیں اور اس علاقے کی حیثیت میں تبدیلی اقوام متحدہ کی نگرانی میں منعقد ہونے والے آزادانہ غیر جانبدارانہ اور شفاف استصواب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔معاہدہ تاشقند اور شملہ سمجھوتے کی رو سے بھی اس مسئلے کو متنازعہ قراردیا گیا ہے۔بھارتی آئین میں آرٹیکل 370 کو انیس سو چون میں شامل کیا گیا جس نے کشمیر کو ایک خصوصی حیثیت کے طور پرتسلیم کیا۔مگر بھارت نے گزشتہ برس 5اگست کو پارلیمنٹ کے ذریعے اس آرٹیکل کو حذف کر دیاا و مقبوضہ کشمیر کو اپنے ملک کا حصہ بنا لیا۔بھارت کا یہ اقدام خود اس کے اپنے آئین کے منافی ہے اور بھارت کی اکثر سیاسی جماعتیں اور سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے وکلا کی تنظیمیں اس اقدام کو ماورائے آئین کہہ چکی ہیں، بھارتی سپریم کورٹ میں آرٹیکل 370 بارے مقدمہ بھی زیر سماعت ہے مگر بھاتی حکومت نے نہ آئین کا لحاظ کیا اور نہ عدالتی فیصلے کا انتظار کیا،نہ اقوام متحدہ سے استصواب کروایا، جس میں کشمیری عوام نے بھارت میں شمولیت کا فیصلہ سنایا ہو،بھارت کا یہ اقدام سراسر ہٹ دھرمی پر مبنی ہے یہاں پر افسوس کی بات یہ ہے کہ بھارت کے اس غیر آئینی اقدام کے بعد بھی اقوام متحدہ خاموش بیٹھی ہے۔ بھارت نے گزشتہ سال 5اگست کو کشمیر میں تاریخ کا طویل ترین کرفیو نافذ کیا جو تادم تحریر جاری ہے، اس کرفیو کا مقصد کشمیریوں کی آواز دبانا ہے جس میں بھارت پوری طرح سے ناکام نظر آرہا ہے۔5اگست سے وادی میں ٹیلی فون اور موبائل سروس منقطع ہے۔کشمیر کے چپے چپے پر بھارتی فوج کے ناکے لگے ہوئے ہیں۔حریت کانفرنس کی لیڈرشپ تو پہلے ہی سے قید وبند کا شکارتھی، اس مرتبہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے ا ن سابق وزرائے اعلی کو بھی قید میں ڈال دیا جو ماضی میں بھارت کے ہم نوا رہے، ان میں شیخ عبداللہ کے دونوں بیٹے عمر عبد اللہ اور فارو ق عبد اللہ شامل تھے۔ محبوبہ مفتی جیسی بھارت نواز سابق وزیرا علی کو بھی قید کر دیا اور ایک سابق وزیر اعلی غلام نبی آزاد جو بھارتی راجیہ سبھا کے رکن ہیں ان کا مقبوضہ کشمیر میں داخلہ بند کر دیا گیا۔ بھارتی کانگرس کے راہنما راہول گاندھی کو سری نگر ایئر پورٹ سے و اپس کر دیا گیااور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے داخلے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔ یوں وادی کشمیر کو ایک وسیع جیل خانے میں تبدیل کر کے مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کر نے کا فیصلہ کیا گیا۔مقبوضہ کشمیر کے علاوہ بھی بھارت کی مختلف ایسے علاقے ہیں جہاں پر اُن کی خصوصی حیثیت قائم ہے، ایسے میں بھارت کے اس اقدام سے دوسری ریاستوں میں بھی آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہے،ایسے میں وہاں کے لوگوں کے اندر یہ ڈر ہے کہ بھارت کا مکار وزیر اعظم مودی کسی بھی وقت آندھرا پردیش،سکم، میزو رام،ارونا چل پر دیش،گوا، کرناٹکا، ناگا لینڈ،آسام، منی پور، تلنگانہ کو بھی غصب کر سکتا ہے۔ ان علاقوں میں بھی آزادی اور علیحدگی کی تحریکیں زوروں پر ہیں۔عالمی اور علاقائی تنازعات کا حل عالمی قوانین کی رو سے ہی کیا جاسکتا ہے۔ یک طرفہ طور پر آئین میں تبدیلی کر کے کسی متنازعہ خطے کوہڑپ نہیں کیا جاسکتا۔ اگر ایسا ممکن ہے تو بھارت کو چین سے لڑنے کے بجائے اپنے آئین میں ترمیم کرکے لداخ کے متنازعہ علاقے غصب کرنے کی ہمت کرنی چاہیے۔ بھارت نے ایک غضب اور ڈھایا اور اپنے آئین سے آرٹیکل35A بھی نکال باہر پھینکا جس کی رو سے غیر ریاستی باشندے کو کشمیر میں غیر منقولہ جائیداد خریدنے پر پابندی عائد تھی اگرچہ یہ آرٹیکل انیس سو چون میں آئین میں ڈالا گیا مگر مہاراجہ گلاب سنگھ کے دور سے یہ پابندی نافذ تھی اور مہاراجہ نے یہ پابندی جموں کے پنڈتوں کے مطالبے پر لگائی تھی تاکہ غیر کشمیری نہ تو ریاست میں ملازمت حاصل کر سکیں اور نہ وہاں جائیداد خرید سکیں۔ اب اس آرٹیکل کے اخراج سے بھارت کے ہر شہری کو مقبوضہ کشمیر کی جنت نظیر وادی میں جائیداد خریدنے کی کھلی چھٹی مل گئی ہے اوریہی فامولہ اسرائیل نے فلسطینیوں کی جائیدادوں پر قبضہ جمانے کے لئے استعمال کیا تھا۔ بھارت کشمیر میں آبادی کی ہیئت بدلنا چاہتا ہے اور کشمیریوں کو اقلیت بنانا چاہتا ہے جو کہ انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی ہے اور اقوام متحدہ کو اس بارے جلد از جلد نوٹس لینا چاہیے۔
سلامتی کونسل کی تمام تر قراردادوں کی رو سے جموں و کشمیرایک ایسا متنازعہ علاقہ ہے جو کہ گزشتہ 72سالوں سے جنوبی ایشیاء کے دو ممالک بھارت اور پاکستان کے درمیان سب سے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے جس کی وجہ سے ان دونوں ممالک کے درمیان 3بڑی جنگیں بھی ہوچکی ہیں اور اس علاقے کی حیثیت میں تبدیلی اقوام متحدہ کی نگرانی میں منعقد ہونے والے آزادانہ غیر جانبدارانہ اور شفاف استصواب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔معاہدہ تاشقند اور شملہ سمجھوتے کی رو سے بھی اس مسئلے کو متنازعہ قراردیا گیا ہے۔بھارتی آئین میں آرٹیکل 370 کو انیس سو چون میں شامل کیا گیا جس نے کشمیر کو ایک خصوصی حیثیت کے طور پرتسلیم کیا۔مگر بھارت نے گزشتہ برس 5اگست کو پارلیمنٹ کے ذریعے اس آرٹیکل کو حذف کر دیاا و مقبوضہ کشمیر کو اپنے ملک کا حصہ بنا لیا۔بھارت کا یہ اقدام خود اس کے اپنے آئین کے منافی ہے اور بھارت کی اکثر سیاسی جماعتیں اور سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے وکلا کی تنظیمیں اس اقدام کو ماورائے آئین کہہ چکی ہیں، بھارتی سپریم کورٹ میں آرٹیکل 370 بارے مقدمہ بھی زیر سماعت ہے مگر بھاتی حکومت نے نہ آئین کا لحاظ کیا اور نہ عدالتی فیصلے کا انتظار کیا،نہ اقوام متحدہ سے استصواب کروایا، جس میں کشمیری عوام نے بھارت میں شمولیت کا فیصلہ سنایا ہو،بھارت کا یہ اقدام سراسر ہٹ دھرمی پر مبنی ہے یہاں پر افسوس کی بات یہ ہے کہ بھارت کے اس غیر آئینی اقدام کے بعد بھی اقوام متحدہ خاموش بیٹھی ہے۔ بھارت نے گزشتہ سال 5اگست کو کشمیر میں تاریخ کا طویل ترین کرفیو نافذ کیا جو تادم تحریر جاری ہے، اس کرفیو کا مقصد کشمیریوں کی آواز دبانا ہے جس میں بھارت پوری طرح سے ناکام نظر آرہا ہے۔5اگست سے وادی میں ٹیلی فون اور موبائل سروس منقطع ہے۔کشمیر کے چپے چپے پر بھارتی فوج کے ناکے لگے ہوئے ہیں۔حریت کانفرنس کی لیڈرشپ تو پہلے ہی سے قید وبند کا شکارتھی، اس مرتبہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے ا ن سابق وزرائے اعلی کو بھی قید میں ڈال دیا جو ماضی میں بھارت کے ہم نوا رہے، ان میں شیخ عبداللہ کے دونوں بیٹے عمر عبد اللہ اور فارو ق عبد اللہ شامل تھے۔ محبوبہ مفتی جیسی بھارت نواز سابق وزیرا علی کو بھی قید کر دیا اور ایک سابق وزیر اعلی غلام نبی آزاد جو بھارتی راجیہ سبھا کے رکن ہیں ان کا مقبوضہ کشمیر میں داخلہ بند کر دیا گیا۔ بھارتی کانگرس کے راہنما راہول گاندھی کو سری نگر ایئر پورٹ سے و اپس کر دیا گیااور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے داخلے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔ یوں وادی کشمیر کو ایک وسیع جیل خانے میں تبدیل کر کے مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کر نے کا فیصلہ کیا گیا۔مقبوضہ کشمیر کے علاوہ بھی بھارت کی مختلف ایسے علاقے ہیں جہاں پر اُن کی خصوصی حیثیت قائم ہے، ایسے میں بھارت کے اس اقدام سے دوسری ریاستوں میں بھی آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہے،ایسے میں وہاں کے لوگوں کے اندر یہ ڈر ہے کہ بھارت کا مکار وزیر اعظم مودی کسی بھی وقت آندھرا پردیش،سکم، میزو رام،ارونا چل پر دیش،گوا، کرناٹکا، ناگا لینڈ،آسام، منی پور، تلنگانہ کو بھی غصب کر سکتا ہے۔ ان علاقوں میں بھی آزادی اور علیحدگی کی تحریکیں زوروں پر ہیں۔عالمی اور علاقائی تنازعات کا حل عالمی قوانین کی رو سے ہی کیا جاسکتا ہے۔ یک طرفہ طور پر آئین میں تبدیلی کر کے کسی متنازعہ خطے کوہڑپ نہیں کیا جاسکتا۔ اگر ایسا ممکن ہے تو بھارت کو چین سے لڑنے کے بجائے اپنے آئین میں ترمیم کرکے لداخ کے متنازعہ علاقے غصب کرنے کی ہمت کرنی چاہیے۔ بھارت نے ایک غضب اور ڈھایا اور اپنے آئین سے آرٹیکل35A بھی نکال باہر پھینکا جس کی رو سے غیر ریاستی باشندے کو کشمیر میں غیر منقولہ جائیداد خریدنے پر پابندی عائد تھی اگرچہ یہ آرٹیکل انیس سو چون میں آئین میں ڈالا گیا مگر مہاراجہ گلاب سنگھ کے دور سے یہ پابندی نافذ تھی اور مہاراجہ نے یہ پابندی جموں کے پنڈتوں کے مطالبے پر لگائی تھی تاکہ غیر کشمیری نہ تو ریاست میں ملازمت حاصل کر سکیں اور نہ وہاں جائیداد خرید سکیں۔ اب اس آرٹیکل کے اخراج سے بھارت کے ہر شہری کو مقبوضہ کشمیر کی جنت نظیر وادی میں جائیداد خریدنے کی کھلی چھٹی مل گئی ہے اوریہی فامولہ اسرائیل نے فلسطینیوں کی جائیدادوں پر قبضہ جمانے کے لئے استعمال کیا تھا۔ بھارت کشمیر میں آبادی کی ہیئت بدلنا چاہتا ہے اور کشمیریوں کو اقلیت بنانا چاہتا ہے جو کہ انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی ہے اور اقوام متحدہ کو اس بارے جلد از جلد نوٹس لینا چاہیے۔
0 Comments